تفسير ابن كثير



سورۃ الأعراف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ[54]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا آتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کیے) اس حال میں کہ اس کے حکم سے تابع کیے ہوئے ہیں، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ [54]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا۔ وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے [54]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے) ۔ یہ خدا رب العالمین بڑی برکت والا ہے [54]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 54،

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ٭٭

بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہو چکی۔ اسی دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمول کے دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی۔ اسی لیے اس کا نام عربی میں «یوم السبت» ہے۔ «سبت» کے معنی قطع کرنے، ختم کرنے کے ہیں۔
2932

ہاں مسند احمد، نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن، عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا۔ [صحیح مسلم:2789] ‏‏‏‏

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی۔ اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ زبردست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار رحمہ اللہ سے لی ہے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
2933

پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں، جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے۔ جیسے امام مالک، امام اوزاعی، امام ثوری، امام لیث بن سعد، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف و خلف رحمۃ اللہ علیہم۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے، اسی طرح اسے رکھا جائے۔ بغیر کیفیت کے، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے۔ ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے۔ اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں۔

فرمان ہے «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» [42-الشورى:11] ‏‏‏‏ ” اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے، دیکھنے والا ہے۔ “

بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے فرمائی ہے۔ انہی میں سے نعیم بن حماد خزاعی رحمہ اللہ ہیں۔ آپ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں۔ فرماتے ہیں: جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے، وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے، وہ بھی کافر ہے۔

خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں، ان میں ہرگز تشبیہ نہیں۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں، انہیں اسی طرح جانے۔ جو اللہ کی جلالت شان کے شایان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے۔
2934

پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہو جاتا ہے۔ ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے۔ یہ گیا وہ آیا، وہ گیا یہ آیا۔

جیسے فرمایا «وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ» [36-يس:37-40] ‏‏‏‏ ” ان کے سمجھنے کے لئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آ جاتے ہیں۔ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے۔ یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے۔ ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے۔ نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے، نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔ رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں، ایک کا جانا ہی دوسرے کا آ جانا ہے۔ ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے۔ “

«وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ» [7-الأعراف:54] ‏‏‏‏ کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے۔ معنی مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے۔ یہ سب اللہ کے زیر فرمان، اس کے ماتحت اور اس کے ارادے میں ہیں۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے۔

فرمان ہے «تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرً» [25-الفرقان:61] ‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس کسی نے کسی نیکی پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا، اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں، اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے «اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ» (‏‏‏‏ابن جریر) [تفسیر ابن جریر الطبری:14784:ضعیف جداً] ‏‏‏‏
2935

ایک منقول دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ وَلَكَ الْمُلْكُ كُلُّهُ وَإِلَيْكَ يَرْجِعُ الأَمْرُ كُلُّهُ أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ» [بیهقی فی شعب الایمان:4400:ضعیف] ‏‏‏‏ یااللہ! سارا ملک تیرا ہی ہے، سب حمد تیرے لیے ہی ہے، سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں، میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
2936



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.